سوہنی ماہیوال قصے کی حقییقتQissa Sohni Mahinwa
![]() |
Sohni Mahiwal Qissa |
سوہنی ماہیوال قصہ
The Actual Story of Sohni Mahiwal and its characters
پی پی ایس سی جیسے امتحانات میں بھی اس کے بارے میں سوال پوچھا گیا ہے۔اس لیئے اپ کو اس کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہیے تاکہ اپ کے نمبر اور اپ کا علم دوسرے طلبہ سے بہتر ہوتبھی اپ کی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے۔
سوہنی ماہیوال کے قصے کے کردار۔
- اس قصہ کے کل چار کردار ہے۔
- ایک: سوہنی جو کہ گجراوالے کی رہنے والی تھی۔
- دو: ماہیوال جس کا اصل نام عزت بیگ جوکہ بخارے کا تھا۔
- تین: سوہنی کا والدجو کہ مٹھی کے برتن بناتا تھا۔
- چار: سوہنی کی نندھ
There are four main character of Sohni Mahiwal Qissa.
Sohni was resident of Gujrawala.
Real name of Mahiwal was Izat Beg who lived in Bukhara city.
Sohni's father was ceramicist.
An unprecedented love story of Sohni Mahiwal.
A young man from Bukhara city who was very handsome comes to Gujra Wale to meet some of his friends. He visits a very close friend of his. His friend pleads for him.
One day the two friends go out for a walk in the city. The same second
Both friends pass by a shop. She actually owns the shop of Sohni's father, who is making pottery, and his daughter is also helping her father. Mahiwal buys some utensils from there, then his eyes fall on the daughter of the potter, who happens to be a beautiful girl. Both of them keep looking at each other. Both like each other.
When the two friends sit down in the evening, he tells his friend that this is how I like a girl. If you go, you should see it.
It is agreed between the two friends that they will go to this shop the next day as well under the pretext of buying some utensils.
On the second day, both friends go to this shop in the same way and Mahiwal sees Sohni again and Sohni also gives him good manners. This time, by chance, Sohni Mahiwal is not the father, so there is also a chance to have some conversation.
Similarly, the two friends go again and again and Sohni and Mahiwal keep meeting.
After some time, all the money Mahiwal has is gone, so Mahiwal uses a trick of his own and tells Sohni's father that he can work in his shop.
Sohni's father does not have a son, so he happily gives him work in his shop.
Which takes place in a village in Gujarat, which is next to the city.
Now Sohni Mahiwal spends a lot of time with each other
But the news spreads in the whole area that Sohni and Mahiwal love each other heart and soul. When Sohni comes to know about this, he forces his daughter's relationship with his brother's son. And Mahiwal can't do anything.
After the marriage, when Sohni's husband starts getting close to her, she curses him to get bitten by a snake and it happens that within a few days she gets bitten by a snake and dies.
After that because Sohni lives in another village and a river flows in between.
Now Sohni crosses a river day and night. Sohni cannot swim, but because she makes clay pots, she makes a heart on which she sits on her back to cross the river.
Everyday she meets Mahiwal.
But one night his Nand comes to know that Sohni is going to meet her lover. Because her brother is dead, she thinks that they should do something so that Sohni dies.
The heart of the fist on whose back Sohni used to cross the river. Her Nand is also from the same family, so she also knows how to make clay pots, she makes kacha ghata and instead of matured ghata, she replaces khacha ghata that night.
When Sohni reaches the middle of the river, the water fills up in the tank. When she sees death in front of her, she calls out to her Mahiwal. He also hears the Mahiwal at the other end, but unfortunately, Sohni is unable to swim in the river. And neither does Mahiwal, that's why both sink.
Two lovers die in the depths of a river. This river is called Kodriachenab.
.. .. .. ..
There are four important things in this story that can be absorbed in the paper.
This story is from Gujarat.
Mahiwal's real name was: Izzat Beg. But he used to graze bulls, so in this area they called Mahiwal who used to steal cattle. That's why he became famous. The name of the river in which both of them drowned is Chenab river.
Because this love story is historically important, you must know about it. A student must know everything then he is called a good student and can leave his impression on others.
Similarly, I will write about other things in the form of an article every day about a couple of things so that in just a few minutes you will have something new every day.
Got to read.
This story was written by Fazal Shah.
سوہنی ماہیوال پیار کا ایک بے مثال قصہ۔
بخارے شہرسے ایک نوجوان جو کہ بلا کا خوبصورت تھا گجرا والے میں اپنے کچھ دوستوں سے ملنے اتا ہے۔ وہ اپنے ایک بہت گہرے دوست کے پاس اکر رکتا ہے۔ اس کا دوست اس کی خاطر توازوں کرتا ہے۔
ایک دن دونوں دوست شہر مین گھومنے کے لئے نکلتے ہیں۔ اسی دوسران
ایک دوکان سے دونوں دوستوں کا گزر ہوتا ہے۔ وہ اصل میں سوہنی کا باپ کی دکان ہوتی ہے۔جو کہ مٹی کے برتن بنا رہا ہوتا ہے۔اور ساتھ اس کی بیٹی بھی اپنے باپ کی مدد کر رہی ہوتی ہے۔ وہاں سے ماہیوال کچھ برتن خریدتا ہے تو اس کی نگاہ اس مٹھی ساز کی بیٹی پر پڑتی ہے جو کہ حسین تیرین لڑکی ہوتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں۔
جب شام کو دونوں دوست بیٹھتےہیں تووہ اپنے دوست کو بتاتا ہے کہ اس طرح اج مجھے ایک لڑکی پسند ائی ہے اس کا دوست پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیتا ہے مگر ماہیوال کے اسرار پر وہ اس کو کہتا ہے کہ چلو کل دوبارہ اس کے ہاں جائےگے تو تم اس کو دیکھ لینا۔
دونوں دوستوں میں یہ طہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے دن بھی اسی طرح اس دکان پر جائے گے کچھ برتن خیریدنے کے بہانے۔
دوسرادن ہوتاہے تو دونوں دوست اسی طرح اس دکان پر جاتے ہیں اور ماہیوال دوبارہ سوہنی کو دیکھتا ہے اور سوہنی بھی اسی طرح اس کو اچھے اخلاق دیتی ہے۔ اس بار اتفاق سے سوہنی ماہیوال کا باپ نہیں ہوتا تو کچھ گفتگو کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔
اسی طرح بار بار دونوں دوست جاتے ہیں اور سوہنی اور ماہیوال ملتے رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماہیوال کے پاس جو پیسے ہوتے ہیں وہ سب ختم ہوجاتے ہیں تو ماہیوال اپنی ایک ترکیب استعمال کرتا ہے اور سوہنی کے والد کو کہتا ہے کہ وہ اس کی دکان پر کام کر سکتا ہے۔
سوہنی کے والد کا بیٹا نہیں ہوتا تو وہ خوشی خوشی اپنے دکان پر اس کو کام دے دیتا ہے۔
جوکہ گجرات کے ایک گاوں میں ہوتی ہے۔جو شہر کے ساتھ ہوتا ہے۔
اب سوہنی ماہیوال ایک دوسرے کے ساتھ کافی وقت بسر کرتے ہیں
مگر اس کی خبر پورے علاقے میں پھیل جاتی ہے کہ سوہنی اور ماہیوال ایک دوسرے سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں۔ جب سوہنی کے بات کو اس بات کا علم ہوتا تو وہ اپنے بیٹی کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ زبردستی کر دیتا ہے۔اور ماہیوال بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
شادی کے بعد سوہنی کے شوہر جب اس کے قریب انے لگتا ہے تو وہ اسکو بد دعا دیتی ہے کہ اس کو سانپ ڈس جائے اور اسی طرح ہوتا ہے کہ اس کو کچھ ہی دنوں میں ایک سانپ ڈس جاتا ہے اور وہ مر جاتا ہے۔
اس کے بعد کیونکہ سوہنی دوسرے گاوں میں رہتی ہے اور درمیان میں ایک دریا بہتا ہے۔
اب سوہنی روز رات کو ایک دریا کو عبور کرتی ہے ۔ سوہنی کو تیرنا تو نہیں اتا مگر کیونکہ وہ مٹی کے برتن بنا لیتی ہے اس لیے وہ ایک دلا بنا لیتی ہے جس کی پشت پر وہ بیٹھ کر دریا پار کرتی ہے۔
روزانہ وہ ماہیوال سے ملتی ہے۔
مگر ایک رات کو اس کی نند کو اس بات کا علم ہو جاتاہے کہ سوہنی اپنے عاشق سے ملنے جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا بھائی مر چکا ہوتا ہے تو وہ سوچتی ہے کہ وہ کچھ ایسا کریں تاکہ سوہنی مر جائے۔
مٹھی کا دلا جس کی پشت پر بیٹھ کر سوہنی دریا پار کرتی تھی۔ اس کی نند بھی اسی خاندان سے ہوتی ہے تو اس کو بھی مٹی کے برتن بنانے کا علم ہوتا ہے وہ کچا گھٹا بناتی ہے اور پختہ گھٹے کی جگہ اس رات کچا گھٹا بدل دیتی ہے۔
جب سوہنی دریا کے درمیان میں پہنچتی ہے تو اس گھٹا میں پانی بھر جاتا ہےوہ جب موت کو اپنے سامنے پاتی ہے وہ اپنے ماہیوال کو پکارتی ہے وہ دوسرے سرے پر ماہیوال بھی سن لیتا ہے مگر افسوس کے نہ تو سوہنی کو دریا میں تیرنا اتا ہے اور نہ ہی ماہیوال کو اتا ہے اسی لئے دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں۔
دو پیار کرنے والے دریا کے گہرائی میں دم توڑ دیتے ہیں۔اس دریا کودریاچناب کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قصے میں چار باتیں اہم ہے جو کہ پیپر میں چوچھی جاسکتی ہے۔
- یہ قصہ گجرات کا ہے۔
- ماہیوال کا اصل نام: عزت بیگ تھا۔مگر بیل بھی وہ چراتا تھا اس لیے اس علاقے میں ماہیوال کہتے تھے جو مال مویشے چراتا تھا۔اس لئے وہ ماہیوال مشہہور ہو گیاتھا۔جس دریا میں دونوں ڈوبے تھے اس کا نام دریا چناب ہے۔
محبت کی اس داستان کیونکہ تاریخی اعتبار سے اہم ہے اس لئے اپ کو اس کے بارے میں علم ہونا لازمی ہے۔ ایک طالب علم کو ہر بات کا علم ہونا لازم ہوتا ہے تبھی وہ ایک اچھا طالب علم کہلاتا ہے۔اور اپنی چھاپ دوسروں پر چھوڑسکتا ہے۔
اسی طرح میں دوسرے چیزوں کو بھی ایک ارٹیکل کی صورت میں روزانہ ایک دو چیزوں کے بارے میں لکھا کرو گا تاکہ محض چند منٹوں میں اپ کو روزانہ کچھ نیا
پڑھنے کو ملے۔
اس قصے کو فضل شاہ نے لکھا تھا۔
Good shot sir
ReplyDelete